Alfia alima

Add To collaction

محبت کی دیوانگی

محبت کی دیوانگی قسط نمبر 6

ڈیڈ میں اسلام آباد جارہا ہوں ۔۔۔(اس نے تیمور صاحب کو بتایا)

کیوں ؟(انھوں نے حیرت سے پوچھا )

اسلام اباد والا ہوسپیٹل ابھی نیا ہے تو مجھے اسے دیکھنا ہے وہاں کچھ پرابلم ہیں جو سولو کرنی ہیں ۔(اس نے گما پھرا کہ جواب دیا )

ٹھیک ہے ۔۔کتنے دن کے لیے جارہے ہوں ؟(انھوں نے اگلا سوال کیا )

دو تین مہینے تو لگ جاہیں گے۔۔

تو پھر اکیلے جاو گے؟(ایک اور سوال)

نہیں پوری ٹیم جارہی ہے میرے ساتھ ۔۔۔۔۔

میں ٹیم کی بات نہیں کررہا ۔۔
تو پھر ؟(اس نے انجان بنتے ہوئے کہا)

میں تصبیہا کی بات کررہا ہوں ۔کیا وہ بھی ساتھ جائے گی؟

جی ۔۔۔۔(مختصر سا جواب دیا اس نے )

ٹھیک ہے ۔۔۔ شاہ کب تک جائے گا ؟

ایک ہفتے بعد وہ بھی پہنچ جائے گا ۔۔۔

کب جانا ہے ؟

پرسو۔۔۔

چلو خیر خیریت سے جاو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمرے میں آیا تو وہ کتاب پڑرہی تھی ۔۔۔اس کے ہاتھ سے کتاب چھین کر وہ بولا)

تیاری کرو چلنے کی ۔۔۔۔

کہا؟

اسلام آباد ۔۔

مگر کیوں ؟

کیونکہ میں کہہ رہا ہوں اس لیے ۔۔۔

مجھے کہیں نہیں جانا تمیارے ساتھ ۔۔۔ بول تو ایسے رہا جیسے ہنی مون پر لے کر جارہو ۔۔۔(اس بڑبڑاتے ہوئے کہا مگر آواز موسب کےکانوں تک چلی گئی ۔۔۔)

تمہیں بڑا شوق ہے میرے ساتھ ہنی مون پر جانے کا ۔۔۔۔(اس نے کاٹدار کہجے میں کہا تتو تصبیہا نے دونتوں تلے زبان لا کر بولی )

استغفراللہ۔۔۔۔۔ سن لیا۔۔۔۔(اخر کہ الفاظ منہ مین بولی )

میں تم سے پوچھ نہیں رہا ہوں ،بتتا رہا ہوں کہ پرسو ہم جارہے ہیں ۔۔۔(وہ جاتنے والے لہجے میں بولتا ہوا واش روم میں چلا گیا تو تصبیہا اس کی نقل اتارتی ہوئی بولی )

پوچھ نہیں رہا بتا رہا ہوں ہنہہہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن وہ ہوسپیٹل جانے کہ لیے ریڈی ہورہا تھا جب تصبیہا کمرے میں آئی وہ اپنے لاکٹس گلے میں ڈال رہا تھا ۔تصبیہا نے برا سا منہ بنایا اوراس کی کافی سایڈ ٹیبل پر رکھ کر اسے دیکھنے لگی کہ جو بولنے آئی ہے وہ بولے یا نہیں ۔خود کو دیکھتا پا کر وہ بولا )


کیا ہوا ہے ؟ ایسے کیا دیکھ رہی ہو ؟ (اس نے ابرو اچکا کر پوچھا )

وہ میں پوچھ رہی تھی کہ میں آج بابا کے گھر چلی جاوں ؟ (اس نے آخر بول ہی دیا )

کس خوشی میں ؟
وہ کل پھر اسلام آباد چلی جاوں گی تو پتانہیں کب ملنا ہو۔۔۔۔۔

کوئی ضرورت نہیں ہے کہیں بھی جانے کی گھر میں رہو۔۔۔(وہ غصے سے بولتا باہر چلاگیا اور وہ ااس کی پشت دیکھتی رہ گئی۔ )
اس گئے ایک گھنٹا ہی گزرا تھا کہ تصبیہا کا موبائل بجنے لگا ۔۔۔دیکھا تو کوئی نمبر تھا ۔تھوڑی دیر بجنے کہ بعد اس نے اٹھالیا)
ہیلو۔۔۔۔۔(تصبیہا کی آواز میں غصہ صاف تھا ۔)

ہیلو۔۔۔۔( دوسری طرف موصب تھا ۔ وہ اس کی آواز پہچان گئی تھی ۔)

ڈرائیور کو بھیج دیا ہے تم اس کے ساتھ چلی جانا اپنے بابا کی طرف ۔۔۔(وہ ایسے بول رہا تھا جیسے احسان کررہا ہو،تصبیہا کو ایساہی لگا۔)

مجھے کہیں نہیں جانا اب ۔۔۔۔(اس نے غصے سے کہہ کر فون کاٹ دیا۔۔اور فون بیڈ پر اچھالتے ہوئے بولی )

مجھ پر احسان کررہاہے ہنہہ نہیں جاوں گی میں بھی۔۔۔

(ڈرائیور آیا تو اسے واپس بھیج دیا ۔اس نے جا کر موصب کو بتایا تو دل میں بولا )

بھاڑ میں جائے مجھے کیا ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ہوسپیٹل سے گھر آیا تو تصبیہا کچن میں تھی ۔ اس کی آواز سن کر وہ کچن میں آیا تو آمنہ بیگم کے ساتھ کام کروارہی تھی۔اسے دیکھ کر وہ بولا)

کھانا نکال دو جلدی ،میں چینج کر کے آرہا ہوں ۔(انداز ایسا تھا جیسے حکم دے رہا ہو ۔۔۔۔۔وہ ایک نظر آمنہ بیگم پر ڈال کر وہاں سے چلا گیا۔)

کمرے میں آیا تو چہرے پر مسکراہٹ تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس وقت وہ بہت غصے میں ہوگی۔ایسی لیے اس کو حکم دے کر آیا تھا ۔ چینج کرکے وہ کچن میں آیا تو آمنہ بیگم اسے دیکھ کر وہاں سے چلی گئیں اب کچن میں بس وہ دونوں ہی تھے۔وہ کرسی آگے کرکے بیٹھ گیا ۔ نظریں تصبیہا پر ہی تھیں جس کی پیٹھ تھی اس کی طرف۔ تھوڑی دیر جب اس نے کھانا نہیں دیا تو وہ بولا)

اب کیا بھوکا مارنا ہے مجھے ۔۔۔۔۔۔

کاش۔۔۔۔(اس نے منہ میں بڑبڑایا )

کیا کہا تم نے ؟(اس نے سن لیا تھا )

میں نے کہا کاش میں ایسا کرسکتی مگر۔۔۔۔۔۔(وہ بھی کہا ڈرنے والی تھی چہرا موڑ کر اسے جواب دیا)

مگر تمہاری قسمت اتنی اچھی نہیں ۔۔۔ہے نا ۔۔۔(اس کا جملا اس نے پورا کیا)

ہنہہ۔۔۔۔(چہرا موڑ کر اس نے کھانا نکال کر اس کے آگے رکھا اور وہاں سے جانے لگی تو وہ بولا)

تیار ہوجاو تمہارے بابا کے گھر لے جاو گا ۔۔۔۔۔(نوالا منہ میں ڈالتے ہوئے بولا)

پہلے تو وہ ٹھٹکی پھر بنا کچھ بولے چلی گئی ۔وہ اسے جواب دینا چاہتی تھی مگر ماں باپ سے ملنے کے لیے وہ چوپ ہوگئی )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھرواپس آئے تک انھیں کافی ٹایم ہوگیا تھا۔ تصبیہا خوش تھی اپنے ماں باپ سے مل کر ۔اسے موصب سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اسے لے جائے گا۔ وہ یہ سب سوچ رہی تھی جب موصب کمرے میں آیا اور اسے بیٹھا دیکھا تو بولا )

کیا سوچ رہی ہو کہ میں اتنا اچھا کیسے ہوگیا۔۔۔۔۔ تو میں تمہاری یہ غلط فہمی دور کردیتا ہوں ۔میں تمہیں وہاں اس لیے نہیں لے کر گیا تھا کہ تم چاہتی تھیں ،بلکے دنیا دیکھاوا بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔۔۔ تاکہ تمہارے گھر والوں کو بھی تو پتا چلے کہ میں کتنا اچھا ہو ۔۔۔۔۔(مسکرا کر اسے بتا رہا تھا اور آخر میں آنکھ مار کر بیڈ پر لیٹ گیا )
تصبیہا کچھ نہیں بولی صرف اسے دیکھتی رہی پھر ڈریسنگ روم چلی گئی ۔۔۔۔ اس کے کوئی جواب نا دینے والا عمل اسے اور تپا دیتا تھا ۔وہ غصے مین چھت کو گھور رہا تھا جبہی سعد کی کال آنے لگی،اس نے کال رسیو کی ۔)

کب تک نکلنا ہے بھائی کل ۔۔۔۔(سعد نے اس نے جانے کا پوچھا )

جب تیرا دل کرے ۔۔۔۔(اس نے براسا منہ بنا کر جواب دیا)

تجھے کیا ہوا ہے۔۔(وہ بھی اس کی رگ رگ سے واقف تھا اس لہجا پہچان گیا تھا کی اس کا موڈ اوف ہے۔)

کچھ نہیں ۔۔۔

تو پھر یہ کیوں کہہ رہا ہے کہ جب دل کر آجا ۔ہم ساتھ نہیں جارہے کیا؟
نہیں تصبیہا بھی میرے ساتھ ہے اس لیے ۔۔۔(تصبیہا کا نام لیتے ہوئے اس نے اتنا برا منہ بنایا جیسے کونین کی گولی کھالی ہو۔)

کیا بھابی جی بھی جارہی ہیں ۔۔۔اوئے ہوئےےےےے۔(اس نے چھیڑنے والے انداز میں بولا )

اس میں اتنا خوش ہونے والی کیا بات ہے؟ (اس غصہ ہی چڑگیا ) وہاں مجھے اتنی جلدی کوئی نوکرانی نہیں ملےگی ۔گھر کے کام تو کرے گا کیا ۔۔اس لیے اسے لے لر جارہا ہوں ۔( ایک ایک لفظ موصب نے چبا کر بولا ۔اس کی آواز اتنی بلند ضرور تھی کہ تصبیہا تک باآسانی جاسکے اور گئی بھی تھی اس کی آواز جیسے تصبیہا نے سن لیا تھا ۔۔

اس کی بات سن کر تصبیہا کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔آخر کب تک اس کے تنز بھرے تیر برداشت کرتی ۔کہتے ہیں جب دکھ حد سے بڑھ جائے تو آنسو بہا دینے چاہیے اس سے نیے دکھ سہنے کا حوصلہ مل جاتا ہے ۔ وہ بھی یہ ہی کررہی تھی مگر اس بات سے انجان تھی کہ آگے ابھی بہت کچھ دیکھنا ہے اسے۔۔۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام آباد پہنچ کر اس نے فیروز کو کال کی ،) ہاں پہنچ گیا تو بتا جو کام کہا تھا وہ ہوگیا ؟ (تصبیہا سے کچھ دور جاکر وہ بات کررہا تھا )

ہاں ہوگیا ہے میں وہیں ہوں تیرے لیے گاڑی بھیجی ہے ۔۔۔

ٹھیک ہے۔۔۔(وہ فون جیب میں رکھتا ہو اس کے پاس آیا ۔ )ْ

اب ہم کس کا ویٹ کررہے ہیں ؟ (تصبیہا نے اکتائے ہوئے لہجے میں پوچھا)

گاڑی کا ۔(اس نے مختصر جواب دیا اور موبائل میں لگ گیا)

تھوڑی دیر میں گاڑی وہاں پہنچ گئی ۔ وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے ۔گاڑی ہوا سے باتیں کرنے لگی ۔تصبیہا کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی ۔موصب نے ایک نظر اسے دیکھا پھر اپنے موبائل میں لگا رہا ۔ان دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی ۔کچھ دیر بعد گاڑی جس علاقے میں رکی ۔ تصبیہا حیران اور پریشان رہ گئی ۔۔۔)

اترو ۔۔۔(وہ اسے حکم دے کر خود اتر گیا اور فیروز سے جا کر گلے ملا جو کہ اس کا دوست تھا اور وہ بھی ڈاکٹر تھا اسی کے ہوسپیٹل میں۔)

اسلام و علیکم بھابی ۔۔(تصبیہا کو آتا دیکھ کر اس نے سلام کیا ،مگر تصبیہا تو اردگرد کو ہی دیکھ کر پریشان تھی ۔۔)

اسے پریشان دیکھ کر موصب کو بڑا سکون ملا ۔۔)

یہ کہا آگئے ہم ؟( اس نے موصب سے پوچھا۔جو کہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔)

ہم یہیں رہیں گے ۔۔۔۔(اس نے بڑے تحمل سے جواب دیا ۔اس کا جواب سن کر تصبیہا نے نظریں گھمایئں تو اردگرد جنگل بیانان تھا ۔دور دور تک کوئی گھر نہیں تھا اور جہاں وہ رہنے کا کہہ رہا تھا وہ ایک پرانا ،بوسیدہ سا گھر تھا جو کہ باہر سے ہی آسیب زدہ لگ رہا تھا ۔۔۔)

چلو اندر ۔۔۔۔(وہ اور فیروز سامان اٹھا کر اندر چکے گئے تو مجبور اسے بھی جانا پڑا ۔اندر کا منظر دیکھ کر تو اسے چکر ہی آنے لگے ۔وہ گھر اس قدر گندہ تھا جیسے صدیوں سے بند پڑا ہو ۔ہر جگہ مکڑی کے جالے لگے تھے،مٹی دھول تھی ۔وہ ایک چھوٹا سا گھر تھا جس میں ایک کمرا،ایک کچن ، ایک اسٹور نما سا کمرا تھا ، چھوٹا سا سہن تھا بس۔۔)

میں یہاں نہیں رہوں گی ۔۔۔(اس گھر کو دیکھ کر اس دماغ گھوم گیا ،اس نے غصے میں کہا )

چاہو یا ناچاہو تمہیں رہنا تو یہیں ہے ۔ اب یہ تم پر میسر ہے کہ رہ کر رہو یا ہنس کر۔۔۔۔(اس نے تصبیہا کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ،فیروز خاموش کھڑا یہ سب تماشا دیکھ رہا تھا۔)

مگر ۔۔۔ (وہ کچھ کہتی مگرموصب نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی اور بولا )

شیشششش ۔۔۔۔۔۔

(تصبیہا نے اس کا ہاتھ جھٹکا ۔۔۔۔تو وہ مسکرا کر پیچھے ہوا اور بولا)

میں فیروز کے ساتھ جارہا ہوں میرے آنے سے پہلے یہ گھر صاف ہوجانا چاہیے سمجھیں ۔۔۔۔(وہ تصبیہا کو حکم سے کر فیروز کے ساتھ چلا گیا )

(کتنی دیر تو وہ ڈری سہمی ایسے ہی کھڑی رہی ۔۔۔ پھر اللہ کا نام لے کر وہ آگے بڑھی ۔۔۔ پھر کچھ خیال آنے پر اس نے اپنے بیگ میں موبائل دیکھا تو وہاں موبائل موجود نہیں تھا۔وہ پریشان ہوگئی )

کہا چلا گیا ۔یہیں تو رکھا تھا ۔(وہ پریشان سی ادھر ادھر دیکھ رہی تھا کہ اچانک اس کہ دماغ میں موصب کا خیال آیا تو وہ سمجھ گئی تھی کہ یہ اسی کا کام ہے۔

شیٹ یار۔۔۔۔(اس نے دیوار پر ہاتھ مارا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   1
0 Comments